(قسط اول)
فکرونظر53
خالدانورپورنوی،المظاہری
امارت شرعیہ؛ملتِ اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ ہے،ہرحالت میں اس کی حفاظت؛ہماری جان سے بھی زیادہ عزیزہے،اسی کے پیش نظر گذشتہ کل(15اپریل 2025) کو حضرت امیرشریعت مولانا سید احمدولی فیصل رحمانی صاحب سے خصوصی بات چیت کے لئے ہماری حاضری ہوئی، ہمارے ساتھ جامعہ مدنیہ سبل پور،پٹنہ کے موقر استاذ جناب مولانامنہاج الدین قاسمی بھی تھے، دوگھنٹے کی اس تفصیلی ملاقات،بات چیت سے یہ بات واضح ہوکرسامنے آئی کہ بزرگوں کی اس امانت کو پاؤں تلے روندنے کی کس طرح سے کوششیں کی گئیں،اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
یادرکھئے!امارت شرعیہ؛محض ایک ادارہ نہیں ہے،ایک فکرہے،ایک تحریک ہے،ایک مشن ہے،جس کے بارے میں حضرت مولاناعلی میاں ندوی ؒ نے فرمایاتھا:کہ اگرمجھے ہندوستان کے کسی صوبہ پر رشک آتاہے تو بہارپر،اوراگربہار پر رشک آتاہے،تو امارت شرعیہ کی وجہ سے،کہ یہاں کے مسلمان اس کی بدولت ایسی زندگی گذاررہے ہیں جومعتبراسلامی سے قریب تر،اور جاہلی وغیراسلامی زندگی سے بعیدترہے۔
بھارت جیسے ملک میں جہاں قوت واقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے،امارت شرعیہ کا قیام،اور اس کے بینر تلے مسلمانوں کے عائلی،سماجی اور معاشرتی مسائل کا حل شریعت اسلامی کی روشنی میں؛ کسی نعمتِ عظمی کم نہیں ہے،اسی لئے اس کے بانی حضرت مولانا ابوالمحاسن سجادؒ امارت شرعیہ کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:آئینِ اسلام کی روسے یہ ظاہرہے کہ امارت شرعیہ کاوجود نہ کوئی مخفی سیاسی جزہے،اور نہ وقتی مسئلہ ہے،بلکہ یہ خالص مذہبی اصول اور شرعی حکم کے ماتحت مسلمانوں کی حیات وزندگی کے لئے لازمی جز ہے،اور تمام اہل علم اور اکثر ارباب حل وعقد نے مناسب غوروخوض کے بعد اس چیز کی بنیادڈالی،اور ہندوستان کے ہرصوبہ کے لئے بہترین نمونہ پیش کیا”۔اس نمونہ عمل کی حفاظت ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہوناچاہئیے!
گذشتہ 29 مارچ کو،جو حادثہ پیش آیا،وجہ جو بھی ہو،کسی بھی اعتبارسے اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتاہے،ہمارا نظریہ بہت ہی صاف اور واضح ہے کہ ادارہ کی حفاظت ہرحال میں کی جائے گی،خاص طورسے ایسا ادارہ؛جو بہار،اڈیسہ،جھارکھنڈکی آن،بان اور شان ہو،اوردیگرریاستوں کے لئے نمونہ عمل ہو،اس کے لئے جو قربانی دینی پڑے اس سے درگذر نہیں کیاجاناچاہئیے!
امارت شرعیہ ؛امت مسلمہ کا ایک باوقار ادارہ ہے،دینی،ملی،سماجی،رفاہی،فلاحی خدمات کا دائرہ سو سالوں پر محیط ہے،فتنوں کے اس دورمیں جبکہ کورٹ،کچہری میں،کسی ایک مقدمہ کے فیصلہ کے انتظارمیں پوری زندگی گذار دیتے ہیں،پیسوں کی بربادی ہوتی ہے،کبھی کبھی انسان آسمان سے بالکل زمین پر آجاتاہے،امارت شرعیہ کے دارالقضاء کے نظام نے غریب وکمزور اور دبے کچلے مسلمانوں کو ایک حوصلہ دیا،بڑے بڑے مسئلوں کو آسانی سے حل کردیاجاتا ہے، لیکن 29 مارچ کے دن جس خوبصورتی سے ٹی وی چینلوں کے سامنے ،اور پولیس وانتظامیہ کی موجودگی میں، حساب وکتاب پر سوالات اٹھائے گئے ،آج کے دنوں میں جبکہ اغیار کی نگاہیں ہماری جانب ٹکی ہوئی ہیں،کیا ادارہ کو بربادی کی طرف لانے کے لئے کافی نہیں ہے!
شخصتیوں کی حفاظت ہونی چاہئیے،لیکن ادارہ کی حفاظت اس سے زیادہ اہم ہے،ہم سب کے ذاتی تعلقات کسی سے بھی اچھے ہوسکتے ہیں،عہدہ اور منصب پر موجود کوئی بھی شخص ہماری طبیعت ومزاج کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں،لیکن جہاں پر ملت اسلامیہ کا وقار داؤ پرہو،ایک امارت نہیں،لاکھوں ،کروڑوں کی تعدادمیں مساجد،مزارات،خانقاہیں،اور اوقاف کی ملکیت کا مسئلہ درپیش ہو،برسر اقتدارحکمرانوں کی جانب سے دھرا،دھر مسلمانوں کے خلاف فیصلے لئے جارہے ہوں،ایسے ماحول میں ذاتی تعلقات کے بچانے،اور اپنے پسند کے شخص کو امیر وذمہ دار بنانے اور اس کے تگ ودو کا کیامطلب رہ جاتاہے؟
امارت شرعیہ کے موجودہ امیر شریعت جناب مولاناسیداحمدولی فیصل رحمانی صاحب کے حوالہ سے آج جو باتیں سامنے آرہی ہیں،یہ بہت پرانی ہیں،ان سے کئی طرح کے اختلافات کئے جاسکتے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ چند بورڈ آف ٹرسٹیز مل کرامیر شریعت کو معزول کردیں؟یہ اختیار انہیں کس نے دیاہے،ٹرسٹ کے ڈیڈ کابھی ہم نے بغور مطالعہ کیا،اس میں بھی ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے،حالانکہ 29 مارچ کو جو ٹرسٹی حضرات موجود تھے،وہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے نصف بھی نہیں ہیں،کسی بھی میٹنگ میں کیاگیافیصلہ اس وقت قابلِ قبول ہوتاہے،جبکہ اس میں موجود لوگوں کو وہ فیصلہ لینے کااختیار حاصل ہو،اور سسٹم کے مطابق نشست بلائی گئی ہو۔
امارت شرعیہ کے نظام کے لئے چار طرح کے باڈیز ہیں،ارباب حل وعقد،مجلس شوریٰ،مجلس عاملہ،ٹرسٹی۔ارباب حل وعقد کی تعداد 851 ہے،شوریٰ کی تعداد101،مجلس عاملہ 30،ٹرسٹی 17،ہر ایک کے لئے دائرہ کار متعین ہیں،امیر کے انتخاب میں ارباب حل وعقد کا اختیار ہوتا ہے، کئی امراء کی صورت میں کثرتِ رائے دیکھی جاتی ہے،مولانا سیداحمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو ارباب حل وعقد کی اکثریت نے منتخب کیا،اور یہ بات پرانی بھی ہوگئی، اس موضوع پھر سے شروع کرنا،امارت شرعیہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے،ہمیں افسوس ہے کہ امارت شرعیہ کے یہ چاروں باڈیز ؛جنہوں نے مل کر امارت شرعیہ کی تعمیروتوسیع میں اہم کردار اداکرتے رہے ہیں، ان میں سے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چند لوگوں نے اس طرح کا جارحانہ اقدام کیوں کرکیا،اور ان کے ساتھ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے آٹھ ممبران شامل تھے،یہ بھی حیرت کی بات ہے!
قسط دوم پھر ان شاء اللہ
(مضمون نگار رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہارکے جنرل سکریٹری،جامعہ مدنیہ سبل پور،پٹنہ کے استاذ اور ترجمان ملت ڈاٹ کام کے بانی وچیف ایڈیٹر ہیں۔)
امارت شرعیہ بہار،اڈیسہ،جھارکھنڈ؛ایک ہے،اسے تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش ;ملت اسلامیہ کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
