جمال فکر وسیرت کے پیکر : حضرت مولانا محمد اسحاق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

✒️:عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

گزشتہ دہے میں جن عبقری شخصیات سےصوبہ بہار کی زمین محروم ہوئی ہے ،ان میں ایک ممتاز نام بافیض عالم دین استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کا بجا طور پر لیا جا سکتا ہے ،وہ جسمانی لحاظ سے گرچہ بسطہ نہیں تھے ، مگر عزم و ارادے کے پختہ کار اور آہنی جہد وعمل کے شناور تھے ،ان کی جمالیاتی فکر کے ساتھ ہی بلند کرداری اور جسمانی تحریک بھی قابل دیدنی ہوتی تھی , وہ زمینی سطح کے مرد میداں تھے ،وہ با فیض مدرس، شیریں سخن خطیب،دردمند داعی ،باکمال منتظم ،اپنے اساتذہ واسلاف کے غیر معمولی قدرداں ،خورد نواز ،جاں پرسوز جہد وعمل میں نقش کہن کے حامی حضرت مولانا محمد اسحاق قاسمی میں باریک بینی اور نبض شناسی کی صلاحیت خوب تر تھی ،وہ مواقع کے استعمال میں بھی حساس ،بلکہ بیدارتھے۔ معاملہ فہمی ،خوش خلقی وملنساری اور تحریکی ذہن کی تابداری سے ان کی زندگی عبارت تھی۔ مدرسہ حسینیہ چلمل کے دور طالب علمی میں انہیں قریب سے دیکھنے کی توفیق ہوئی ،مگر پرکھنے اورشخصیات کو سمجھنے کی صلاحیت اس وقت تک نہ ہوسکی تھی ،اس لئے حضرت مولانا محمد اسحاق قاسمی رحمہ اللّٰہ کو ایک سے زائد باردیکھنے کے باوجود ، انہیں سمجھ نہیں سکا تھا ،جب دو ہزارچھ کے اواخرمیں میرا مستقل قیام اپنے شہر بیگوسرائے میں ہوااور مرکزی مسجد کچہری بیگوسرائے میں امام کی حیثیت سے روز وشب بیتنے لگے ،تواس درمیان حضرت رحمہ اللہ سے اکثر بعد نماز عصر مسجد میں یا دینی کتاب گھر مارکیٹ ٹوڈے میں دعا سلام ہوجایا کرتی تھی،ایک مرتبہ مولانا شمیم القاسمی اور مولانا محمد اسحاق قاسمی رحمہ اللہ دونوں بزرگ،مسجد کی طرف سےملے ہوئےمیرے حجرے میں بغیر کسی پیش گی اطلاع کے، بعد نمازظہر تشریف لائےاور پوری یکسوئی سےدیر تلک محو گفتگو رہے،میں نئے ذہن کا نووارد، دونوں بزرگوں کو غور سے سماعت کرتا رہااور پرکھتا رہا ،یاد پڑتا ہے کہ گفتگو کا رخ جمعیتہ علماء بیگوسرائےکے مستقبل کے تعلق سے تھا ۔

اس طرح ضلع کی دونوں بزرگ شخصیتوں سے آگہی اورانہیں سمجھنے کی معمولی واقفیت یہاں کے مستقل قیام کے بعد ہی ہوسکی،اس درمیان مولانا شمیم القاسمی اکثر چاند بھائی کے پاس اپنے علم و مطالعے اور رجل ظریف کا جلوہ بکھیرتے ہوئے دکھ جاتے تھے ،مگر مولانا محمد اسحاق قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ اپنی گوناں گوں ذمہ داریوں میں ہی مصروف عمل رہتے ،تاآں کہ وہیں کچہری مسجد کی امامت کے دوران ہی اس عاجز نے ضلع میں باضابطہ بنات کا پہلااقامتی ادارہ قائم کرنے کا عزم کیا تو مولانا محمد اسحاق صاحب قاسمی سے بھی از راہ عقیدت ومحبت اور ان کے زمینی علم وتجربے سے استفادے کی غرض سے اپنے عزم مصمم کا اظہار کیا تب انہوں نے علماء وعوام کی جہت سے بے لاگ لپیٹ کئی ایسی واضح حقیقتوں کا انکشاف کیا تھا ،بعد کی زندگی میں ان کےذکر کردہ حقائق میں سے ایک ایک تکلیف دہ حقیقتوں سے خوب واسطہ پڑا ،تب مولانا کی بھی بہت یاد آئی اور انہوں نے دشوار مرحلوں سے بعافیت گذرنے کی جو ترکیبیں بتلائیں وہ بھی کام آئیں۔بہر حال بات آئی گئی ہوگئی۔مگر اس کے بعدسے جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے خندہ پیشانی اور مسکراہٹوں کے ساتھ میرے عزم کا استقبال کیا اور حوصلہ افزائی بھی۔

حضرت مولاناقوت فیصلہ میں بھی ممتاز اورعلم وفکر میں فائق تھے،وہ طالب علم کی شکل میں سنگلاخ وادیوں سے ہیرے اور موتی چگنے کے خوگر تھے،اپنی اسی فطری عادت کی وجہ سے انہوں نے نہ صرف متعدد کردہ علاقوں میں دین کی شمع روشن کی ، بعض گارجینوں سے بے غرض اور ذاتی طلب کے بغیر مل کرطلبہ کو تیار کرتے اور انہیں دور نزدیک کے مختلف مدارس میں داخل کراتے تھے ،ان کی زندگی کے ممتاز ترین پہلوؤں میں یہ رخ انقلابی صفت کا حامل ثابت ہوا ،درجنوں علماوحفاظ آپ کے فکر جمیل اور سیرت کی بلند کرداری سے براہ راست مستفید ہوئے جو آج الگ الگ راہوں میں نقش پاسمجھے جارہے ہیں۔

جاری …….

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے