ظلم رہے اور امن بھی ہو؟ کیا ممکن ہے، تم ہی کہو؟

ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

حبیب جالب کی یہ پکار آج بھی گونج رہی ہے، مگر اس بار یہ فریاد زمین کے کسی مظلوم شہری کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی ہے، یہ سوال اسرائیل سے بھی ہے، امریکہ سے بھی، اقوامِ متحدہ سے بھی اور ان تمام خاموش تماشائیوں سے بھی، جو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک نسلی تطہیر Ethnic cleansing
کا منظر دیکھ رہے ہیں اور پھر بھی امن، مذاکرات اور انسانی حقوق کی مالا جپ رہے ہیں۔

رمضان المبارک کی مقدس گھڑیاں ہیں، دنیا بھر کے مسلمان عبادتوں میں مصروف ہیں، افطار کی روحانی ساعتیں ہیں، سحری کی نورانی برکتیں ہیں، تراویح اور عمرے ہیں، مگر غزہ کی سرزمین پر کچھ اور ہی منظر ہے، وہاں پھر سے بچوں کے جسموں کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں، ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، گھروں کی چھتیں زمین بوس ہو رہی ہیں، بچے کھچے مکانات ملبے کا ڈھیر بن رہے ہیں، اور گلیاں خون میں رنگی جارہی ہیں۔

اس درمیان اسرائیل کا جھوٹا پروپیگنڈا ہمیشہ کی طرح پوری ڈھٹائی سے دہرایا جارہا ہے کہ یہ حماس کی بد عہدی کا نتیجہ ہے، اس نے یہ جواز گڑھ لیا ہے کہ جنگ دوبارہ اس لیے شروع کی گئی ہے کیونکہ حماس قیدیوں کے تبادلہ کے لیے تیار نہیں، اور دنیا کے نادان یا سازشی حلقے اس جھوٹ کو سچ مان کر بیچنے لگے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسرائیل نے اپنے بیشتر یرغمالیوں کو جنگ بندی کے ذریعہ واپس حاصل کیا تھا، نہ کہ گولیوں سے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسرائیلی وزیر جنگ یوآف گالانت نے خود کہا تھا کہ یہ معاہدہ مہینوں پہلے اور بہتر شرائط پر ممکن تھا، اگر نیتن یاہو کی ضد درمیان میں نہ آتی؟
پھر یہ سچ کیوں نہیں بولا جاتا کہ اسرائیل کا اصل مقصد اپنے یرغمالیوں کی واپسی نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی تھی؟ اگر اسرائیل کا مسئلہ واقعی یرغمالی ہوتے، تو وہ جنگ بندی کا احترام کرتا، مذاکرات جاری رکھتا، اور معاہدے کے تحت طے شدہ امداد، عارضی مکانات، اور دوسرے مرحلہ کے مذاکرات کو آگے بڑھاتا، مگر ایسا نہیں ہوا، کیونکہ اسرائیل صرف اور صرف قتلِ عام چاہتا تھا۔
یہ تو سب پر واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل کو قیدیوں کا معاملہ صرف ایک بہانہ کے طور پر درکار تھا، اس نے پہلے مرحلہ کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن چال چلی، اور جیسے ہی اس نے اپنے مطلوبہ یرغمالی واپس لے لیے، وہ جنگ بندی کو روند کر دوبارہ حملوں پر آمادہ ہو گیا، امریکہ، جسے انصاف کے ٹھیکیدار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس سازش میں پوری طرح شامل ہے۔

اگر کوئی اب بھی شک کرے کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کا خاتمہ ہے، تو اسے صرف ایک لمحہ کے لیے یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے: اگر حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کو صرف جنگ بندی کے بدلہ چھوڑ دے، اور کسی فلسطینی قیدی کی رہائی کا مطالبہ بھی نہ کرے، تو کیا اسرائیل پھر بھی جنگ روکے گا؟ نہیں! اسرائیل کو جنگ چاہیے، وہ ایک لمحہ کے لیے بھی امن برداشت نہیں کر سکتا، کیونکہ امن اس کے ناپاک مقاصد کے خلاف جاتا ہے، اور قرآن اور بائبل میں یہودیوں کی جن گھناؤنی عادتوں عہد شکنی، افترا پردازی، مکاری اور جھوٹ کا ذکر کیا ہے، اس سے اس کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے۔

یہ جنگ صرف موجودہ قتل و غارت کے لیے نہیں، بلکہ اس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے، اسرائیل کے مفکرین اور حکمت عملی تیار کرنے والے حضرات عرصہ سے "الیوم التالي” (اگلے دن) کے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں، فلسطینی عوام کا مستقبل کیا ہوگا؟ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے کوئی مستقبل نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ حماس نے جب مصر کی اس تجویز کو قبول کر لیا، جس کے تحت غزہ کا انتظام ایک غیر حماسی امدادی کمیٹی کے سپرد کیا جاتا، تو اسرائیل نے فوراً اسے رد کر دیا، عرب ممالک نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے منصوبہ پیش کیا، مگر اسرائیل، امریکہ اور ان کے کچھ عرب اتحادی اس کے خلاف کھڑے ہو گئے؛ کیونکہ یہ جنگ کبھی بھی حماس کو کمزور کرنے کے لیے نہیں تھی، بلکہ فلسطینی عوام کو مکمل ختم کرنے کے لیے تھی۔

اگر کوئی اب بھی اسرائیلی پالیسی کو ایک "علاقائی تنازع” سمجھتا ہے، تو وہ نادان ہے، اسرائیل کی توسیع پسندانہ جنگی پالیسی غزہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ شام، لبنان اور پورے خطہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، شام کی موجودہ حکومت نے کبھی اسرائیل سے جنگ نہیں کی، نہ ہی اس پر حملہ کیا، اور یہاں تک کہ بعض مواقع پر اسرائیلی جارحیت پر خاموش رہی، مگر اسرائیل پھر بھی وہاں حملے کرتا رہا۔

یہی حال مغربی کنارے کا ہے، جہاں اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل کر چکا ہے، مگر کوئی عالمی ردِ عمل نہیں، یہ وہی پالیسی ہے جسے اسرائیل ہمیشہ اپناتا ہے: پہلے زمین پر قبضہ کرنا، پھر قبضہ کو جواز دینا، اور آخر میں جنگ کے ذریعہ اسے مستقل حقیقت بنا دینا۔

یہ جنگ صرف اسرائیل کے توسیعی عزائم کی نہیں، بلکہ اسرائیلی داخلی سیاست کی بھی ہے، نیتن یاہو اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، عدالتی مقدمات سے فرار، 7 اکتوبر کی ناکامی پر احتساب سے بچاؤ، دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو راضی رکھنا— یہ سب کچھ وہ خون کے دریا بہا کر کر رہا ہے۔

ایتمار بن غفیر کی پارٹی عظمة يهودية (یہودی عظمت) کی حکومت میں واپسی کو محض اتفاق نہیں قرار دیا جاسکتا، یہ معاہدہ اسرائیل کے غزہ پر تازہ حملہ سے صرف پانچ دن پہلے طے پایا تھا، کیا یہ واقعہ واضح نہیں کرتا کہ یہ جنگ کسی دفاعی ضرورت کے تحت نہیں، بلکہ داخلی سیاسی کھیل کے طور پر لڑی جا رہی ہے؟

لیکن اسرائیل کو اس درندگی سے باز کون رکھے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو پوری دنیا کو درپیش ہے، خصوصاً عرب ممالک کے در پردہ اسرائیل نواز اور فلسطین دشمن سربراہوں کو، اسرائیل نے جب دیکھا کہ دنیا نے غزہ کے قتل عام پر کوئی کارروائی نہیں کی، تو وہ مغربی کنارہ میں بھی وہی کر رہا ہے، جب دنیا مغربی کنارہ میں نسل کشی پر خاموش رہی، تو اسرائیل نے شام، لبنان اور خطہ کے دیگر ممالک میں بھی اپنی مہم تیز کر دی، جب دنیا نے ہر ظلم کو برداشت کیا، تو اسرائیل کے ہاتھ کھل گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اسے روکنے والا ہے؟ کیا فلسطینی بچوں کے خون کا کوئی حساب ہوگا؟ کیا کاغذی شیروں کی عرب دنیا، جو اپنے معاہدوں پر فخر کرتی ہے، اسرائیل کی جارحیت کو چیلنج کرے گی؟ کیا عالمی برادری فلسطین کی حمایت میں کھڑی ہوگی؟

یا پھر تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی، اور ہم سب خاموش رہیں گے، حتیٰ کہ جب فلسطینی قوم کا وجود مٹ جائے، اور پھر ہم ماتم کرتے پھریں کہ ہم نے کچھ نہ کیا؟

متعدد اسرائیلی مفکرین نے مختلف ادوار میں فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی ہے، اور ان کے اقوال تاریخی اور اخلاقی تناظر میں اہم ہیں، ایک قابلِ ذکر نام مارٹن بوبر (Martin Buber) کا ہے، جو ایک ممتاز یہودی فلسفی اور مفکر تھے، لیکن انہوں نے فلسطین کے عرب باشندوں کے حقوق کی حمایت کی اور ایک مشترکہ ریاست کے تصور کو فروغ دیا، ان کا ایک مشہور اقتباس جو فلسطین کے حق میں ان کے موقف کو ظاہر کرتا ہے، 2 جون 1958 کو نیویارک میں Jewish Newsletter میں شائع ہوا تھا: "جب ہم (نبوی یہودیت کے پیروکار) فلسطین واپس آئے، تو یہودی عوام کی اکثریت نے ہم سے سیکھنے کے بجائے ہٹلر سے سیکھنا پسند کیا۔”، یہ اقتباس ان کے اس خیال کی عکاسی کرتا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی پالیسیوں میں تشدد اور جبر کے رجحانات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فلسطینیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہم کی وکالت کی، بوبر کا ماننا تھا کہ یہودیوں اور عربوں کو فلسطین میں برابر کے حقوق کے ساتھ رہنا چاہیے، اور انہوں نے صہیونیت کے اس عسکری اور استعماری رخ کی مخالفت کی جو فلسطینیوں کے استحصال پر مبنی تھا۔
کاش اس موقف کو تائید حاصل ہوتی اور ہمارے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہم سے دغا نہ کرتے، ورنہ:
ظلم رہے اور امن بھی ہو؟
کیا ممکن ہے، تم ہی کہو؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے