عبدالمجید اسحاق قاسمی(خاکسار)
امام وخطیب جامع مسجدخاتوپور،بیگوسرائے،بہار
اسلام ایک ایسا دین ہے جو محض عبادات و رسومات کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ ایک زندہ روحانی نظامِ حیات ہے، جس کی ہر تعلیم دل کو بدلنے، روح کو نکھارنے اور انسان کو بندگی کے اعلیٰ مقام تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ انہی تعلیمات میں سے ایک عظیم الشان عمل قربانی بھی ہے، جو محض جانور ذبح کرنے کا ظاہری عمل نہیں؛ بلکہ اپنے نفس، خواہشات اور انا کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا دینے،اخلوص وللہیت اورمعرفت الہی حاصل کرنےکا نام ہے۔
قربانی درحقیقت ایک جسمانی تطہیر اور باطنی سفر کا آغاز ہے، جو انسان کو فنائے نفس سے گزار کر بقائے حق تک پہنچاتا ہے۔ یہ وہ درسِ تسلیم ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں ملتا ہے۔ جب انہوں نے خواب میں بیٹے کی قربانی کا حکم پایا، تو نہ صرف خود کو بلکہ اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیلؑ کو بھی اس ربانی حکم کے تابع کر دیا۔ اور حضرت اسماعیلؑ نے بھی کیسا عجیب جواب دیا:
یٰآ أَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِی انْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔
"ابا جان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے، اس پر عمل کیجیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سےپائیں گے۔”
(سورۃ الصافات:102)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اِس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
”اِس جملے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی غایتِ ادب اور غایتِ تواضع کو دیکھئے، ایک تو ان شاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے حوالے کردیا، اوراِس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے بالکل ختم فرمادیا، دوسرے آپ یہ بھی فرماسکتے تھے کہ ”آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے“ لیکن اس کے بجائے آپ نے فرمایا ”انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“ جس سے اِس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ صبر وضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے؛ بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، ان شاء اللہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گا، اِس طرح آپ نے اِس جملے میں فخروتکبر، خودپسندی اور پندار کے ادنیٰ شائبے کو ختم کرکے اس میں انتہا درجے کی تواضع اورانکسار کا اظہار فرمادیا۔“
(روح المعانی، بحوالہ معارف القرآن ج۷، ص:۴۵۹۔)
اللہ اکبر! یہ کیسا جذبۂ قربانی اور کیسی بے مثال فدائیت کہ باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی، اور بیٹے نے بھی بغیر تردد کے اپنی گردن چھری کے نیچے رکھ دی! خلیل اللہ نے اطاعت کی انتہا کر دی، اور ذبیح اللہ نے تسلیم و رضا کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک مشعلِ راہ بنی رہے گی۔ دونوں نے بندگی کا حق ادا کر دیا، اور رب کائنات نے قرآن میں اس ایثار کو یوں خراجِ تحسین پیش فرمایا:
” قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْیَا، اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ”
(الصافات: 105)
"تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔”
یعنی اے ابراہیم! تم نے اپنے حصے کا کوئی حق باقی نہ رکھا، اطاعت کے اس امتحان میں پورے اترے، اور خالص بندگی کی وہ مثال قائم کی جسے خالقِ کائنات نے ہمیشہ کے لیے قبول فرما لیا۔
یہی وہ ادائے بندگی تھی جو رب کو اس قدر پسند آئی کہ اس قربانی کو قیامت تک کے لیے یادگار بنا دیا، اور اسے قربِ الٰہی کا مستقل ذریعہ قرار دے دیا۔ امتِ مسلمہ ہر سال اس قربانی کی یاد مناتی ہے، اور اعلان کرتی ہے کہ اللہ کے حکم کے سامنے انسان کو اپنی سب سے عزیز شے کو بھی قربان کرنے میں ذرہ برابر تامل نہیں ہونا چاہیے۔
اور کیا خوب فرمایا حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ نے:
"اسلام جب بھی چمکا ہے قربانیوں سے چمکا ہے، آج بھی قربانیوں ہی سے چمکے گا۔ اسلام کے لیے قربانیاں ہوں، تو یہ دشمنوں کے نرغے میں بھی چمکتا ہے، اور جب قربانیاں نہ ہوں تو اپنی سلطنت میں بھی مٹ جاتا ہے۔”
واقعی! اسلام کی روشنی، تلوار کی دھار سے نہیں، خلوص کی قربانیوں سے پھیلی ہے۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام سے لے کر میدانِ کربلا، اور فتنوں کے مقابل ڈٹے علمائے حق تک، ہر مقام پر اسلام نے اپنے ماننے والوں سے یہی مطالبہ کیا ہے: قربانی، قربانی اور بس قربانی!
گویا یہی وہ تسلیم و رضا کا مقام ہے، جسے قربانی کی اصل روح کہا جا سکتا ہے۔
قربانی اور تقویٰ
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اللہ کو نہ ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ وہ تقویٰ ہے جو اسے تمہاری طرف سے پہنچتا ہے۔
(سورۃ الحج: 37)
یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل مقصود نہ گوشت ہے، نہ خون، بلکہ دل کی کیفیت، نیت کی صداقت، اور عمل کی اخلاص پر مبنی روح ہے۔
آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، اس میں عبادات کو صرف ظاہری رسموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گوشت تقسیم ہوتا ہے، جانور ذبح ہوتے ہیں، مگر دل میں نہ ابراہیمی جذبہ ہوتا ہے، نہ اسماعیلی اطاعت۔ جبکہ قربانی کا اصل پیغام یہ ہے کہ:
"اے رب! اس جانور کے ساتھ میں تیرے حضور اپنی خواہشات، لذتیں، گناہ، غرور اور خودپسندی بھی قربان کرتا ہوں!”
قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صرف جانور کے گلے پر چھری چلانا کافی نہیں، بلکہ اصل قربانی نفس کی گردن پر اللہ کی محبت کی تلوار چلانا ہے۔ جو نفس ہمیں گناہوں کی طرف کھینچتا ہے، جو ہمیں دنیا کی لذتوں میں غرق کرتا ہے، جو ہمیں عبادت سے دور کرتا ہے، اسی نفس کو زیر کرنا دراصل قربانی کی سب سے اعلیٰ شکل ہے۔
جب جانور کو لٹایا جائے، تو دل سے یہ کہو:
"یا اللہ! جیسے یہ جانور تیرے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کیے لیٹا ہے، ویسے ہی میں بھی تیرے ہر فیصلے پر راضی ہوں، مجھے تیرا ہر حکم قبول ہے، چاہے وہ میری عقل کو سمجھے یا نہ سمجھے، میرے نفس کو بھائے یا نہ بھائے۔”
یہی وہ جذبہ ہے جسے "فنا فی اللہ” کہا جاتا ہے — اللہ کی رضا میں خود کو مٹا دینا۔
"قربانی صرف عمل نہیں، بلکہ قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔
واقعی! جب انسان محض رسم کے طور پر جانور نہیں ذبح کرتا، بلکہ ہر وار کے ساتھ اپنے دل سے دنیا کی محبت کا قلع قمع کرتا ہے، تو وہ قربانی اللہ کے دربار میں مقبول ہو جاتی ہے۔ اور یہی قبولیت انسان کو قربِ الٰہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔
قربانی صرف عید الاضحیٰ کے تین دنوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک دائمی پیغام ہے۔ جو ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ ایک قربانی ہے—خواہ وہ وقت ہو، مال ہو، خواہش ہو یا عزت، ہر چیز اللہ کی رضا کے تابع ہونی چاہیے۔
اللہ کے محبوب بندے وہی ہوتے ہیں جو ہر لمحہ اس کی رضا کے لیے جیتے ہیں، اور مرنے سے پہلے خود کو اللہ کے حکم پر قربان کر چکے ہوتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ جیسا جذبۂ تسلیم و رضا عطا فرمائے،
ہمیں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی توفیق دے،
اور ہمیں ان بندوں میں شامل فرما دے جو صرف قربانی کرتے نہیں، بلکہ خود "قربان” ہو جاتے ہیں۔
آمین یا رب العالمین!