معرکۂ بدر: ایمان کی فتح ، باطل کی شکست

عبدالمجید اسحاق قاسمی
امام وخطیب جامع مسجدخاتوپور بیگوسراۓ بہار

یہ سترہ رمضان کی پرنور ساعتیں ہیں۔ وہی دن جب زمین نے اپنی کوکھ سے ایک ایسا منظر دیکھا جو قیامت تک حق و باطل کے مابین امتیاز کی علامت بن گیا۔ یہ وہ دن ہے جب کائنات نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فتح کا معیار صرف مادی وسائل اور ظاہری اسباب نہیں بلکہ ایمان، استقامت اور اللہ کی نصرت ہے۔ یہ وہ ساعت ہے جب آسمانوں کے دروازے کھل گئے، فرشتے زمین پر اتر آئے، اور قدرت نے خود اعلان کیا: "کمزور جماعت غالب آئے گی، باطل کی کمر ٹوٹ جائے گی، اور حق کا پرچم سر بلند ہوگا!”

یہ بدر کا میدان ہے، جہاں حق اور باطل کی پہلی اور فیصلہ کن جنگ ہونے جا رہی ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو نسل در نسل ظلم و استبداد کے عادی ہیں، جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں، جو انسانوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، جو لات و منات کے مجاور ہیں، جو دولت، طاقت اور عددی کثرت کے نشے میں چور ہیں، جن کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ جس کے پاس تلوار ہے، فتح اسی کے نام لکھی جائے گی۔

دوسری طرف وہ ہیں جو تعداد میں قلیل، وسائل میں محدود، ظاہری اسباب سے تہی دامن، مگر ایمان کی قوت سے سرشار، توحید کے نعرے سے لبریز، اور رب العالمین کی تائید پر یقینِ کامل رکھتے ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جو زمین پر عدل، مساوات اور توحید کی حکمرانی چاہتی ہے، جو خدائی نظام کو نافذ کرنے کا عزم رکھتی ہے، جو کسی انسان کو دوسرے انسان پر خدائی کا اختیار دینے کو سب سے بڑا جرم سمجھتی ہے، جو ظالموں کے چنگل سے مظلوموں کو نجات دلانے نکلی ہے، جو اہل زمین کو اہل آسمان کے نظام سے جوڑنے نکلی ہے۔

جنگ سے قبل کی رات

بدر کی وادی میں شب کے سائے پھیل رہے ہیں۔ کفار اپنی طاقت پر نازاں خیموں میں جشن منا رہے ہیں، اور ادھر محمد عربی ﷺ کی آنکھوں میں نیند نہیں۔ آپ ﷺ اللہ کے حضور دست دعا بلند کیے عرش کو ہلا رہے ہیں، فرطِ تضرع سے چہرۂ اقدس زمین پر جھکائے گڑگڑا رہے ہیں:

"اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ بچے گا!”

یہ الفاظ نہیں، آسمان کو جھنجھوڑ دینے والی فریاد ہے! جبریلِ امین بھی منتظر ہیں کہ کب رب العالمین کا حکم صادر ہو، کب مدد کے لشکر زمین پر اتریں، کب قضا و قدر کا فیصلہ ظاہر ہو۔

معرکہ کا آغاز

صبح طلوع ہوتی ہے، سورج کی کرنیں جب بدر کی ریت پر بکھرتی ہیں تو دونوں لشکر آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ابوجہل کا غرور آسمان سے باتیں کر رہا ہے، مگر اسے کیا معلوم کہ آج زمین اس کا غرور نگلنے والی ہے! آج اللہ کا وعدہ سچا ہونے والا ہے، آج وہ دن ہے جب تاریخ لکھے گی کہ "ایمان تلوار پر غالب آ گیا!”

ادھر نبی اکرم ﷺ اپنے جانثاروں کے ساتھ صفیں درست فرما رہے ہیں۔ زمین پر کنکریاں اٹھاتے ہیں، باطل کے لشکر کی طرف پھینکتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے: "سیہہ الوجوہ!” (چہرے سیاہ ہو جائیں!)
اللہ اکبر! یہ کلمہ ادا ہوتے ہی زمین لرزنے لگتی ہے، آسمان سے نصرت کے پرچم اترتے ہیں، فرشتے سفید گھوڑوں پر سوار ہو کر اترتے ہیں، اور معرکۂ بدر کا آغاز ہو جاتا ہے۔

فیصلہ کن گھڑیاں

دیکھتے ہی دیکھتے باطل کے بظاہر ناقابلِ شکست لشکر کی صفیں الٹنے لگتی ہیں۔ علیؓ کی تلوار قہر بن کر برستی ہے، حمزہؓ کے ہاتھوں میں بجلی کی کوند نظر آتی ہے، زبیرؓ نیزے کی کاٹ سے تاریخ بدل رہے ہیں، طلحہؓ کے تیروں کی بوچھاڑ میں دشمن بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ اور پھر ایک عجیب منظر سامنے آتا ہے، دو نوخیز مجاہد، معاذ اور معوذؓ، تیز رفتاری سے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے ابوجہل تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہی ابوجہل جو غرور و تکبر میں ڈوبا ہوا تھا، جو کہتا تھا: "ہماری تعداد کمزوروں کو کچلنے کے لیے کافی ہے!”

مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ جب اللہ کی نصرت شاملِ حال ہو تو دو کم سن بچے بھی دنیا کے سب سے بڑے ظالم کو اس کے انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ معاذ اور معوذؓ کی تلواریں اٹھتی ہیں اور ابوجہل کا غرور خاک میں مل جاتا ہے۔ وہ زمین پر گرتا ہے، تڑپتا ہے، آخری سانسیں لیتا ہے، اور پھر ہمیشہ کے لیے وادیٔ بدر کی خاک میں دفن ہو جاتا ہے۔

حق کی فتح، باطل کی شکست

کچھ ہی دیر میں کفار کی لاشیں ریگزارِ بدر پر بکھری نظر آتی ہیں۔ ابو سفیان شکست خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے، عتبہ، شیبہ، ولید، سب کے سب خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں۔ وہ قریش جو اپنے گھمنڈ میں چور ہو کر مدینہ پر چڑھ آئے تھے، آج اپنی لاشیں چھوڑ کر میدان سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

اور ادھر نبی اکرم ﷺ فتح کے سجدے میں گر جاتے ہیں۔ آسمان پر اللہ کی کبریائی کے ترانے گونج رہے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب کفر کی بنیادیں ہل گئیں، جب ظالموں کی نیندیں حرام ہو گئیں، جب توحید کا پرچم سربلند ہوا، جب یہ اعلان ہوا کہ حق ہمیشہ کے لیے غالب رہنے کے لیے آیا ہے اور باطل ہمیشہ کے لیے مٹنے کے لیے!

یہ بدر تھا! یہ حق کی پہلی جیت تھی! یہ وہ دن تھا جس نے دنیا کو بتا دیا کہ اللہ پر بھروسہ رکھنے والے کبھی کمزور نہیں ہوتے! یہ وہ گھڑی تھی جس نے ثابت کر دیا کہ ایمان، قربانی، صبر اور استقامت کے ساتھ کھڑا ہونے والا کبھی شکست نہیں کھاتا! اور یہ وہ لمحہ تھا جس نے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یہ رقم کر دیا کہ "حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے ہے!”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے