از:مولانا ارشد کبیر خاقان مظاہری
ناظم:مدرسہ نورالمعارف،مولانا علی میاں نگر،دیاگنج،ضلع ارریہ
جنرل سکریٹری:ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(رجسٹرڈ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً ایک سماجی مخلوق بنایا ہے۔ انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا، بلکہ اسے زندگی کے ہر موڑ پر دوسرے انسانوں کی حاجت پیش آتی ہے اور یہی باہمی ضرورت معاشرت کو جنم دیتی ہے اور معاشرتی زندگی کے ضوابط و آداب وجود میں آتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک نہایت اہم اور حساس موضوع”پڑوسیوں کا حق“ہے، جس کی بنیاد محبت، ہمدردی، خیر خواہی اور تعاون پر رکھی گئی ہے۔
اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلامی صرف عبادات پر ہی اکتفا نہیں کرتی، بلکہ انسانی تعلقات، باہمی حقوق، اور سماجی آداب پر بھی اتنی ہی سختی سے زور دیتی ہے۔ حقوق العباد کی عظیم فہرست میں ”پڑوسیوں کا حق“کو ایک منفرد اور بلند مقام حاصل ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کو بھی ایمان اور نیکی کی علامت قرار دیا۔
عصرِ حاضر میں جہاں انسان ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا ہے، وہیں وہ معاشرتی رشتوں سے غفلت برتتا جا رہا ہے۔ پڑوسی جو کبھی ماں باپ کے بعد سب سے قریب سمجھے جاتے تھے، آج اجنبیت اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ ایک ہی عمارت میں سالوں سے رہنے والے افراد ایک دوسرے کا نام تک نہیں جانتے۔ نہ خوشی میں شرکت ہے، نہ غم میں دلی ہمدردی۔ یہ رویہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے بغاوت ہے بلکہ انسانی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔
پڑوسی صرف وہ نہیں ہوتا جو آپ کے مکان کے ساتھ رہتا ہے، بلکہ وہ ہر وہ شخص ہے جو آپ کے گرد و پیش رہتا ہے، آپ کے روز مرہ معاملات میں شامل ہوتا ہے، یا جسے آپ کے طرزِ عمل سے کوئی اثر پہنچتا ہے۔ اسلام میں پڑوسیوں کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں:
1۔ مسلمان رشتہ دار پڑوسی: اس کا تین گنا حق ہے: پڑوسی ہونے کا، مسلمان ہونے کا، اور رشتہ داری کا۔
2۔ مسلمان غیر رشتہ دار پڑوسی: اس کا دوہرا حق ہے: پڑوسی اور مسلمان ہونے کا۔
3۔ غیر مسلم پڑوسی: اس کا بھی ایک حق ہے: پڑوسی ہونے کا۔
یہ اسلامی جامعیت کا عظیم مظہر ہے کہ اس نے غیر مسلم پڑوسی کے بھی حقوق متعین کیے، کیونکہ اسلام انسانیت کے احترام کو بنیاد بناتا ہے۔
اس تمہید کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ایک مہذب، بامروّت اور کامیاب سماج کی بنیاد اس وقت تک نہیں رکھی جا سکتی جب تک ہم پڑوسیوں کے حقوق کو سمجھ کر ان پر عمل نہ کریں۔ اگر ہم واقعی مہذب بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں یہ سوال خود سے کرنا ہوگا:”کیا ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ وہ برتاؤ کرتے ہیں جو قرآن و سنت کا تقاضا ہے؟“یہی سوال ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑے گا اور ہمیں اس مضمون کی اہمیت کا قائل کرے گا کہ پڑوسیوں کے حقوق صرف اخلاقی ضرورت نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔
پڑوسی قرآن کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے: ”اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، قریبی پڑوسی، دور کے پڑوسی، اور تمہارے پہلو میں بیٹھنے والے، اور مسافر، اور تمہارے غلاموں کے ساتھ بھی۔ بے شک اللہ تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔“(سورۃ النساء، آیت 36) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کو والدین اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کے برابر قرار دیا ہے، جو اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پڑوسی احادیث کی روشنی میں:
نبی کریم ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق پر بہت زور دیا ہے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔صحابہ نے پوچھا:”کون یا رسول اللہ؟“آپ ﷺ نے فرمایا:”جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہ ہو۔“(صحیح بخاری)ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:”جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کرتے رہے کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔“(صحیح بخاری)
پڑوسی سے متعلق دانشوران کے مشورے:
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”پڑوسی کے 11 حقوق ہیں: جب وہ مدد مانگے تو مدد کرو، جب قرض مانگے تو دو، جب محتاج ہو تو اسے دو، جب بیمار ہو تو عیادت کرو، جب اسے بھلائی پہنچے تو مبارک باد دو، جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، جب وفات پا جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ، اس کی اجازت کے بغیر اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو، اپنی ہانڈی کی خوشبو سے اسے ایذا نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو، پھل خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو، اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ۔“(شعب الایمان للبیہقی)
موجودہ معاشرتی صورتحال:
آج کے دور میں پڑوسیوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لوگ ایک ہی بلڈنگ میں رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔ کئی بار معمولی باتوں پر جھگڑے ہو جاتے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوں، اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔
اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان تعلیمات پر عمل کریں تاکہ ہمارا معاشرہ ایک مہذب اور پرامن معاشرہ بن سکے۔ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک نہ صرف ہمارے ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے بلکہ ایک خوشحال اور پرامن معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھیں، ان کے ساتھ حسن سلوک کریں،ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوں،ان کے حقوق کا خیال رکھیں،ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں اوران کی مدد کریں جب وہ مدد مانگیں تاکہ ہمارا معاشرہ ایک مہذب اور پرامن معاشرہ بن سکے۔
رب ذوالجلال ہم سبھوں کو عمل کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین